جومسلمان صبح و شام تین تین مرتبہ سورئہ اخلاص، سورئہ الفلق اور سورئہ الناس پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتا ہے اللہ اس کو سحر کے اثرات سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ابراہیم نے بتایا کہ مولانا کی اس نصیحت کے بعد اب تک اس کا پابندی سے تین قل صبح و شام پڑھنے کا برابر معمول ہے۔(ملک خرم شہزاد، اٹک) ابراہیم اپنی خاندانی روایات سمیٹ کر ایک مدرسہ میںزیر تعلیم تھا۔ اللہ نے اس کو غیرمعمولی حافظہ اور ذہانت سے نوازا تھا۔ وہ ایک دفعہ اپنے استاد سے سبق سنتا تو اس کو یاد ہو جاتا۔ سال بھر کے مختلف امتحانات سہ ماہی و ششماہی میںوہ کبھی دوم نمبر سے کامیاب ہوتا تو کبھی اول نمبر سے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے وہ سالانہ امتحانات میں برابر اول نمبر ہی پر آرہا تھا۔ اس کے کئی ساتھی جو اس سے کئی گنا رات دن محنت کرتے اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہے تھے۔ بالآخر زاہد جو اس کا کئی سال سے اسی کلاس میں ساتھی تھا اور ہر سال اس سے مقابلہ کی ناکام کوشش کرتا۔ شیطان نے اسے ایک ترکیب سجھائی کہ وہ کسی ساحر یا عامل سے اس کواس طرح زیر کرے کہ وہ عین امتحان میں اپنی یاد کی ہوئی چیزیں بھول جائے۔ کچھ لکھ نہ سکے اور نتیجتاً ناکام نہ سہی اول آنے سے رہ جائے۔ زاہد کیلئے مشکل یہ تھی کہ وہ شہر میں کھلم کھلا اور علی الاعلان اس طرح کے ناجائز و خلاف شریعت کام کیلئے کسی عامل سے رجوع نہیں کر سکتا تھا۔اس طرح کے لوگوں سے ملنا اور ان کے یہاں آنا جانا ہی اس کو شک کے دائرے میں لانے کیلئے کافی تھا۔ وہ کئی دن تک سوچتا رہا بالآخر ابلیس لعین نے اس کو اس کا بھی حل بتایا۔ وہ یہ کہ وہ ملک کے کسی نامور و خوش عقیدہ عامل سے خط و کتابت کے ذریعہ رجوع کرے۔ زاہد نے کسی طرح ایک بڑے شہر میں موجود نامور عامل کا پتہ حاصل کر لیا اور خط کے ذریعہ ابراہیم کو زیر کرنے کی اپنی اس خواہش کا اس سے اظہار بھی کر دیا۔ اس عامل نے جوابی خط میں زاہد سے ابراہیم کے متعلق وہ تفصیلات طلب کیں جس کی اس کو اس غیر شرعی عمل میں ضرورت تھی یعنی اس کا اور اس کے والدین کا نام، عمر پتہ وغیرہ۔ ادھر زاہد مطمئن تھا کہ اس مرتبہ وہ ضرور امتحان میں ابراہیم سے بازی لے جائے گا ورنہ کم از کم ابراہیم تو اول آنے سے ضرور رہ جائےگا۔ لیکن وہ یہ بھول گیا تھا کہ بیماری کے ساتھ علاج کی طرح اللہ نے زہر کے ساتھ تریاق اور سحر و جادو کے ساتھ اس کا توڑ بھی رکھا ہے۔ عامل کے خط سے زاہد کو معلوم ہوا کہ اس نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اور اس کا اثر جلد ہی ظاہر ہونے والا ہے۔ عامل کی پیشنگوئی کے مطابق زاہد مسلسل کئی ماہ تک ابراہیم کا برابر جائزہ لیتا رہا کہ اس سفلی عمل کا کیا منفی اثر اس پر مرتب ہو رہا ہے۔ کیا اس کی طبیعت بجھی بجھی سی رہتی ہے، کیا وہ ہمیشہ سوتارہتا ہے یا اس کی طبیعت خراب رہتی ہے یا وہ خلاف عادت کلاس روم سے غائب رہنے لگا ہے۔ لیکن اس کو تعجب ہوا کہ اس طرح کا کوئی اثر کئی ماہ کے انتظار کے باوجود اس پر مرتب نہیں ہو رہا تھا۔ بالآخر اس نے عامل سے رجوع کیا تو وہاں سے جواب آیا کہ آپ کے ساتھی کو ہمارے اس عمل کا چونکہ پیشگی علم ہو گیا ہے اور اس نے اس کا توڑ بھی پہلے ہی سے کر لیا ہے اس لیے ہمارے سحر کا اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔ لیکن زاہد کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ ابراہیم کو اس کا کیسے علم ہو گیا؟ اگر واقعی اس کو علم ہو گیا ہوتا تو وہ اس کےساتھ پہلے ہی کی طرح بے تکلف کیوں ہے اور اس سلسلہ میں اس کی طرف سے کسی ناگواری کا اظہار کیوں نہیں ہو رہا ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ ابراہیم اس کی حرکت سے لاعلم ہی تھا لیکن دوسری طرف زاہد بے چین تھا کہ کسی طرح یہ گتھی سلجھ جائے کہ ملک کے نامور عامل بھی ابراہیم کے سلسلہ میں ناکام کیوں ہیں؟ عامل کے اس شہر میں اس کے مدرسہ میں ابراہیم کے گاﺅںکے کچھ طلباءزیر تعلیم تھے۔ ان سے اس عامل کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس شہر میں صحیح العقیدہ لوگوں کا غلبہ ہے اور وہاں ان کا ایک بڑا مرکزی مدرسہ بھی ہے۔ ایک دن باتوں باتوں میں اس نے مدرسہ میں زیر تعلیم ایک طالب علم کو زاہد کے خطوط دکھائے اور اس کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ تمہارے شہر کے خود اسی مدرسہ میں ہمارے مسلک و عقیدہ کے کتنے لوگ موجود ہیں۔ جو خود ہم سے اپنی ضرورت کیلئے رجوع کرنے پر مجبور ہیں۔ چھٹیوں میں اس طالب علم نے وہ خطوط بطور ثبوت لاکر اپنے کچھ دوستوں کو دکھائے جو زاہد کے مدرسہ میں زیرتعلیم تھے۔ اس طرح زاہد کا پول کھل گیا اور مدرسہ کے مہتمم تک بھی بات پہنچ گئی۔ زاہد کے معافی مانگنے پر اس کو چھوڑ دیا گیا۔ ابراہیم کے ان دوستوں نے جب اس کی اطلاع اُس کو دی تو ان سب باتوں اور تفصیلات کو وہ بڑے ہی اطمینان سے بے فکری کے ساتھ سنتا رہا اور یہ کہہ کراس نے اپنے دوستوں کو اطمینان دلایا کہ میری طرح اگر تم بھی ان ادوار و اذکار کی پابندی کرو جو حدیث شریف میںبتائے گئے ہیں تو تم کو بھی اللہ اس طرح کے عمل کے منفی اثرات سے انشاءاللہ محفوظ رکھے گا۔ جب دوستوں نے اس کی تفصیل جاننی چاہی تو اس نے بتایا کہ بچپن میں ایک دفعہ مدرسہ میں حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب مدظلہ العالی کی زبان سے سنا تھا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جومسلمان صبح و شام تین تین مرتبہ سورئہ اخلاص ،سورئہ فلق اورسورئہ الناس پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتا ہے ، اللہ اس کو سحر کے اثرات سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ابراہیم نے بتایا کہ مولانا کی اس نصیحت کے بعد اب تک اس کا پابندی سے تین قل صبح و شام پڑھنے کا برابر معمول ہے۔ جب اللہ کی توفیق سے میں اس کی پابندی کررہا ہوں تو مجھے نہ کسی کا خوف ہے اور نہ کسی سحر و جادو کا اندیشہ۔ مولانا نے ان دو آخری سورتوں کا شان نزول بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض یہودیوں نے سحر کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا اثر بھی ظاہر ہو گیا تھا۔ اسی کے توڑ کیلئے اس موقع پر یہ سورتیں معوذتین نازل ہوئی تھیں اور اس کی تلاوت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہونے والا سحر کا اثر زائل ہو گیا تھا۔